ڈاکٹر عمران فاروق قتل اور تفتیشی شگوفے

جامعہ کراچی پولیٹیکل سائنس کی طالبہ نے اپنے ریسرچ ورک میں لکھا کہ’’کراچی ایک عجیب شہر ہے۔اس میں ڈھائی کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں اور کراچی سے زیادہ عجیب ہے کراچی کی ۸۵فیصد نمائندہ جماعت ایم کیو ایم۔
ایم کیو ایم کی مثال سیاسی جماعتوں میں ویسی ہی ہے جو اہل تصوف میں حسین بن منصور حلاج کی ہے … سب سے زیادہ مشہور اور سب سے زیادہ متنازع‘‘…

بات تو بہت حد تک سچ ہی کہی پر ہم بات آگے بڑھائیں گے کہ جہاں تک ہماری سمجھ نے کام کیا کہ ایم کیو ایم کو متنازع بنانے میں ہاتھ صرف اورصرف ۲فیصد مراعت یافتہ طبقہ کا ہے۔ایم کیو ایم چونکہ اسٹیٹس کو کے خلاف پہلی آواز تھی اسی لیئے مراعت یافتہ طبقہ آج تک ایم کیو ایم کو ایک حقیقت تسلیم کرنے پہ تیار نہیں۔ یہاں مراعت یافتہ طبقے سے مراد کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کا وہ گروہ ہے جو صفائی کو تو نصف ایمان تصور کرتے ہیں پر قومی خزانے کی صفائی کو کُل ایمان جانتے ہیں۔اس مخصوص طبقے نے ایم کیو ایم کو کیوں تسلیم نہیں کیا یہ ایک الگ بحث ہے غلطیاں بہت سی ہیں اور شاید کہیں نہ کہیں دونوں طرف سے ہوں۔ لیکن آج تک کا مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ ایک مخصوص سوچ کا حامل طبقہ ایم کیو ایم مخالفت میں وہ کچھ بھی کر گذرتا ہے جو بعد میں خود اس کیلئے باعث تضحیک بنتا ہے۔مثلاً ۹۲ کے آپریشن میں ٹارچر سیلوں کی عجیب و غریب ویڈیوز ہوں ، یا جناح پور کے نقشے کا برامد ہونا ہو،حکیم سعید مرڈر کیس میں سزاوار مجرموں کی تعداد ہو یا ۲۰۱۵کے حالیہ نائن زیرو پہ چھاپے ہوں۔یہ تمام کے تمام اقدامات وقت کے ساتھ ہمیشہ غلط ثابت ہوتے رہے۔ اور مختلف اوقات میں کبھی کوئی کرنل ہارون تو کبھی بریگیڈیئر امتیاز میڈیا پہ آ  آکر معذرتیں کرتے رہے۔  ابھی حال ہی کے شوشوں کا یہ عالم یہ ہے کہ نائن زیرو ریڈ میں جو لوکل یا بقول انکے نیٹو اسلحہ برآمد  ہوا تھا اس اسلحے کی کوئی ایف آئی آر آج تک کہیں درج نہیں ہوئی وہ اسلحہ میڈیا کو دکھانے کے بعد کس گٹر کی زینت بنا یہ آج ۱۱ماھ گذرنے کے بعد بھی کسی کو نہیں پتا۔آج اسکا کوئی ریکارڈ کہیں نہیں ملتا۔ اسی طرح عمران فاروق مرڈر کیس کی ایف آر کا کٹ جانا اور اسکی تفتیش کا پاکستان میں ایف آئی کے ہاتھوں (بحکم ویرداخلہ) ہونا اور ایف آئی اے کو انٹرپول سے رابطہ کرکے الطاف حسین کو لانے کی باتیں کرنا بھی کسی لطیفے سے کم نہیں۔

ہم نے عمران فاروق کیس میں جمع کی گئی معلومات کا جب مطالعہ کیا تو ہماری تو ہنسی ہی چھوٹ گئی کیونکہ الطاف حسین ایک برطانوی شہری ہیں، ان کی پاکستانی شہریت کب کی ہماری محب الوطن حکومت منسوخ کرچکی ہے، الطاف حسین کی جانب سے نادرا کو پاکستانی قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لئے درخواست گزار کی گئی تھی جو ایک سال ہونے کو ، تادم تحریر زیر التوا ہے۔ چونکہ نادرا کے محکمے کا فون خراب ہے انٹرنیٹ چل نہیں رہا اور ڈاکیہ چھٹی پہ ہے اسلئے شناختی کارڈ کی منظوری کے لئے احکامات نہیں ملے البتہ ہماری پاکستانی وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کو الطاف حسین کو گرفتار کرنے کے لئے انٹرپول کی مدد لینے کا حکم دے دیا ہوا ہے۔ آُپ کو یہ گورکھ دھندا سمجھ نہیں آیا توآسان لفظوں میں بتارہا ہوں کہ انٹرپول سے کسی شہری کو گرفتار کروانے کے لئے اسکو پاکستانی شہری ثابت کرنا ہوگا اوراسکے لئے مطلوب شخص کا قومی شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے جو وزارت داخلہ کا ماتحت ادارہ نادرا نہیں بناکر دے رہا کیونکہ اسی وزارت داخلہ کی جانب سے این او سی نہیں ملا جو انٹرپول کے ذریعے الطاف حسین کو پاکستان لاکر ٹرائل کرنے باتیں کررہے ہیں۔

ہم ٹہرے دوٹکے کے بھوکے ننگے کالے کلوٹے لیکن یہ بات تو ہم جیسی زندہ کی بھی سمجھ آتی ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت عزیزآباد تھانے کی حدود میں ہونے والے قتل کا مقدمہ جوہرپولیس اسٹیشن میں درج نہیں ہوسکتا۔ تھانہ پھلیلی کی پولیس اگر گاڑی کھاتہ پولیس اسٹیشن کی حدود سے کسی مطلوب شہری کو گرفتار کرنے جائیگی تو وہ متعلقہ تھانے کو مطلع کرنے کی پابند ہوگی۔اسی طرح اگر گوجرانوالہ کا شہری کراچی آکر ایک شخص کو اغواکرے اور اسے حیدرآباد جامشورو میں مارکر اس کی لاش وہاں پھینک کر پشاور روپوش ہوجائے تو اسکے اغوا کا مقدمہ بھلے کراچی میں درج ہو لیکن قتل کا مقدمہ وہاں درج ہوگا جہاں سے لاش دریافت ہوئی۔تو میڈیا پہ بیٹھے چیف جسٹس نما ٹی وی اینکر بتائیں کہ لندن میں قتل ہوئے ایک برطانوی شہری کے قتل کا مقدمہ پاکستان میں کیسے درج ہوسکتا ہے جس کے نامزم ملزم کا قومی شناختی کارڈ آپ بنانے کو تیار نہیں ہیں۔
اور جو شخص قتل ہوا وہ تو آپکے وزارت داخلہ کے کاغذات اور عدالتی اشتہارات کے ضمن میں وفات سے چند سیکنڈ قبل تک اشتہاری تھا اور حکومت پاکستان نے اس پر عائد مقدمات نہ تو واپس لئے تھے اور نہ ہی اسکا اشتہاری اور زندہ مردہ گرفتاری پر سات لاکھ کا انعام والا انسداد دھشت گردی کی عدالت سے باقاعدہ منظور شدہ اشتہار منسوخ کیا گیا۔ تو آئین پاکستان کی رو سے اگر الطاف حسین یہ کہے کہ میں نے ڈاکٹر عمرا ن فاروق کو قتل کیا یا کروایا تو آپکو تو انہیں سات لاکھ انعام دینا پڑ جائے گا۔

اسی کیس میں ایک لطیفہ جو کہ حال ہی میں رونما ہوا کہ خالد شمیم نامی آدمی جس پہ الزام ہے کہ اس نے ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کیا اس کے بارے میں وزارت داخلہ سے یہ پتا چلا ہے کہ یہ شخص افغان بارڈر کراس کرتے ہوئے تین چار ماھ پہلے گرفتار  ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی پریس کلب کا رجسٹر اس بات کا گواہ ہے کہ یہ شخص پانچ سال پہلے ۵جولائی ۲۰۱۱ کو کراچی بمقام ملیر ہالٹ سے سادہ لباس اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتارہوا۔اس واقعے کی چشم دید گواھ خالد شمیم کی زوجہ بینا شمیم ہیں۔ خالد شمیم کی زوجہ نے اپنے شوہر کے مسنگ ہونے کی اطلاع پریس کلب دی اور تھانہ شاہراہ فیصل دی اور خالد شمیم کی تصویر کے ساتھ پریس کلب پہ اگست ۲۰۱۱ میں ایک مظاہرہ بھی کیا۔تو اگر خالد شمیم شاہراہ فیصل سے گرفتار ہوا تھا تو افغان بارڈر سے کون گرفتار ہوا۔

image

ایک اور شگوفہ کہ جس قتل کو پانچ سال تک ایک شخص قبول کرنے پہ تیار نہ ہوا اچانک ایک رات میں ڈھکے منہ کیساتھ کیسے اس پہ ایم آئی سکس اور الطاف حسین کے سارے راز افشاں ہوگئے۔ یہ تمام باتیں ہم کسی الہامی کیفیت میں نہیں لکھ رہے بلکہ یہ تمام معلومات بینا شمیم کی حالیہ پریس کانفرنس میں  بھی سامنے آچکے ہیں۔ بلکہ بینا شمیم کا حلفیہ دعوی تو یہاں تک ہے کہ خالد شمیم کبھی برطانیہ گیا ہی نہیں تو جو شخص کبھی برطانیہ گیا ہی نہیں اس نے برطانیہ میں قتل کرکیسے دیا۔ اب ان تمام انکشافات اور اس تمام تفتیش کو شگوفہ نہ لکھا جائے تو کیا لکھا جائے۔

بات طویل ہورہی ہے جس کی معذرت پر ایک بھوکا ننگا زندہ لاش لکھاری ہونے کی حیثیت سے یہ واضح کرتے چلیں کہ کسی بھی قتل کی جب کوئی تفتیش ہوا کرتی ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قتل کا فاعدہ کسے ہوا اور نقصان کسے جسے قتل کا فاعدہ ہوا کرتا ہے وہی سب سے پہلے دائرہ تفتیش و شک میں آتا ہے۔لکھنا مناسب تو نہیں پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا سب سے زیادہ فاعدہ چونکہ آصف علی زرداری اور پی پی پی کے کرپٹ عناصر کو ہوا اسی لیئے آصف علی زرداری عوامی مشکوک ٹہرائے جاتے ہیں۔اس کے برعکس عمران فاروق قتل کا فاعدہ کسے ہوا اس کا فیصلہ قاری پہ چھوڑتے ہیں لیکن قسم ہے باری تعالی کی نقصان صرف اور صرف الطاف حسین اور شمائلہ فاروق بیوہ ڈاکٹر عمران فاروق کا ہوا۔ایک کا پرانا رفیق تو ایک کا شوہر ہمیشہ کیلئے اسے چھوڑ گیا۔

خدارا عمران فاروق کے رفقاء اور انکے خاندان کے ساتھ یہ کھلوار بند ہونا چاہیئے ڈاکٹر صاحب عظیم سیاسی اثاثہ تھے آپ کا قتل جس کسی نے بھی کیا اور جس کے کہنے پہ ہوا سامنے آنا چاہیئے اور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے لیکن لگتا ہے کہ اس بھونڈے طریقہ تفتیش سے یہ کیس بھی شہید ملت، و شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کی طرح بند فائلوں کی ہی زینت نہ بن کے رہ جائےگا۔

Author: Junaid Raza Zaidi

The Only Sologon is Pakistan First

One thought on “ڈاکٹر عمران فاروق قتل اور تفتیشی شگوفے”

  1. Quaid-e-tehreek pakistan ki stablishmint ko army ko Or Tamam Siasi jamaton ko na Pasand hen kyon ke Wow Bikne per Razi Nahi Such Bolna Or 98/ persant ko haq-e-Numaindagi Dilwana On ka Mission hay jo kisi ko pasand nahi

Leave a comment