دیوانے کا خواب

بچپنے کا ذکر هے که جب کویی خواب دیکها کرتے تھے اور اس کا تذکره کرتے تھے تو بڑے بوڑھے خواب کے تذکرے کو منع فرماتے تھے میری نانی محترمه کها
کرتی تھیں که خواب کی تعبیر جس کسی کو آتی هو خواب اسے بتانا چاهیے.عمومی انداز سے اور عام آدمی سے خواب کا ذکر سبکی لاتا هے. مثال کے طور پر اگر کویی دیکهتا که فلاں کی میت هوگیی هے تو کهتیں صدقه کرو الله نے عمر بڑھا دی.هم خوب مذاق اڑایا کرتے تھے.لیکن آج بڑے بذرگ تو دنیا میں رهے نھیں لیکن ان کی باتیں ره گیی هیں جن په هم کو تو ایمان وقت کے ساتھ ساتھ آتا گیا.

صوبه سندھ کے چند وزیر دوستوں نے بھی ایک خواب دیکها تھا اور اس خواب کو عملی جامه پهنانے کیلیے بلدیاتی ترامیم کی گییں ، نیی حلقه بندیاں
کی گییں لیکن تعبیر ملی آج ٣٠ جنوری دو رکنی ھایی کورٹ کے بنچ سے . جتنی تعبیر سمجھ آیی اس کے مطابق

 

سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں کی جانے والی ترمیم کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
کراچی میں پیر کو جسٹس سجاد علی شاہ نے عدالت کے دو رکنی ڈویژنل بینچ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
اسی بارے میں
فیصلے میں مقامی حُکومتوں کے ترمیمی بل 2013 کی تیسری ترمیم کو سندھ لوکل باڈیز ایکٹ 2013
سے متصادم قرار دیتے ہوئے اُسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کی رو سے یونین کونسلوں کی جگہ یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔

 

فیصلے میں رواں برس 13 اور 21 نومبر کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں جو حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر، لاڑکانہ اور کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے تناظر میں جاری کیے گئے تھے۔

 

عدالت نے یہ تجویز بھی دی ہے اگر نئی حلقہ بندیوں کے لیے سپریم کورٹ سے سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی اجازت مل جاتی ہے تو صوبائی حکومت ایک آزاد کمیشن بنائے جو تمام تر قوانین اور ضابطۂ کار کے مطابق حلقہ بندیوں کے معاملے کو دیکھے اور ایک آزاد فورم فراہم کرے جہاں حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلوں کی سماعت ہو سکے۔

 

جب سندھ و بالخصوص کراچی کے حوالے سے جو خواب و نظام سامنے لایا گیا تو اس وقت بھی یم نے یهی کها تھا دیوانے کا خواب هے دیوانگی کی باتیں هیں.اپنے چند عوامی فیصلوں میں سے ایک آج قلم بند هوا.اور دیوانے کے خواب کی تعبیر ثابت هوا.لیکن یه فیصله همارے نزدیک ادھورا ٹھرا کیونکه اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں وقت کا تعین کرتی اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فوری حل نکالتی تو بھت بھتر صورتحال هوتی.بحرحال یه سندھ حکومت کی ناکامی اور اس نظام کے مخالف قوتوں کی بھت بڑی کامیا بی هے.

 

بحرحال اپنے لوکل باڈیز کے حوالے سے آخری بلاگ میں هم نے کها تھا که الیکشن هوتے نھیں دکهتے وجه کیا بنے گی همیں نھیں پتا لیکن یه الیکشن نهیں هونے کے اور آج پهر اپنی بات په قایم هیں که وجه سپریم کورٹ بنے ، سندھ حکومت بنے یا کویی اور الیکشن جنوری تو دور مارچ میں بھی نظر نھیں آرهے. وجوهات کل تحریر میں لاییں گے.لیکن چلتے چلتے دعایے فقیر یه هے که “اے الله رحمان ملک کو عزیز آباد کا رسته بھلادے.”اور اب کویی تعویز نه چلے.

جے رضا زیدی.

سندھ لوکل باڈیز ایکٹ 2013

سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں کی جانے والی ترمیم کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
کراچی میں پیر کو جسٹس سجاد علی شاہ نے عدالت کے دو رکنی ڈویژنل بینچ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
اسی بارے میں
فیصلے میں مقامی حُکومتوں کے ترمیمی بل 2013 کی تیسری ترمیم کو سندھ لوکل باڈیز ایکٹ 2013
سے متصادم قرار دیتے ہوئے اُسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کی رو سے یونین کونسلوں کی جگہ یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔

فیصلے میں رواں برس 13 اور 21 نومبر کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں جو حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر، لاڑکانہ اور کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے تناظر میں جاری کیے گئے تھے۔

عدالت نے یہ تجویز بھی دی ہے اگر نئی حلقہ بندیوں کے لیے سپریم کورٹ سے سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی اجازت مل جاتی ہے تو صوبائی حکومت ایک آزاد کمیشن بنائے جو تمام تر قوانین اور ضابطۂ کار کے مطابق حلقہ بندیوں کے معاملے کو دیکھے اور ایک آزاد فورم فراہم کرے جہاں حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلوں کی سماعت ہو سکے۔

کام کرو جی کام

Image
کام کرو جی کام

 

دنیا پاگل ہے جی روٹی کی تلاش میں۔ اور انٹرنیٹ پر تو لوگ باؤلے ہورہے ہیں۔ کام کام کام مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کماؤں۔ ہر طرف بس یہی ہاہا کار ہے۔ میرے جیسے کنویں کے مینڈک بھی ہر طرف تاکتے جھانکتے پھرتے ہیں ترجمہ کروا لو، پروف ریڈنگ کروا لو، ڈیٹا اینٹری کروا لو، آرٹیکل لکھوا لو۔۔ کہ شاید کہیں سے کوئی آواز پڑے اوئے چھوٹے ادھر آ یہ بوٹ تو پالش کردے۔
سائیں انٹرنیٹ پر یہ چھوٹے موٹے کام بوٹ پالش کرنے جیسے ہی ہیں۔ فری لانسر ایسی قوم کا نام ہے جسے آپ عام زندگی میں دیہاڑی دار کے نام سے یاد کرتے ہیں، دیہاڑی دار یعنی رنگساز جو برش کو رنگ کے ڈبے پر رکھ کر سارا دن اڈے پر بیٹھا رہتا ہے اور دن ڈھلنے پر انتظار کر کر کے اور بارہ ٹہنی کھیل کر گھر چلا جاتا ہے، فری لانسر وہ راج مستری ہے جو اوزاروں والا تھیلا سارا دن سامنے رکھ کر انتظار کرتا ہے اور روزگار نہ ملنے پر سارا دن بیٹھ کر سر جھکائے گھر چلا جاتا ہے، فری لانسر وہ مزدور ہے جو بوڑھا ہوچکا ہے اور اب صرف ہتھوڑی چلا کر اینٹوں کی روڑی بنا سکتا ہے لیکن لمبے دستے والی ہتھوڑی لیے سارا دن بس بیٹھا ہی رہ جاتا ہے اور اسے کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ تو صاحبو ہم بھی فری لانسر ہیں۔ انٹرنیٹ کی گلیوں آواز لگاتے پھرتے ہیں ہے کوئی جو ترجمہ کرالے، ہے کوئی جو ڈیٹا انٹری کروا لے ہے کوئی جو پروف ریڈنگ کروا لے ، ہے کوئی جو آرٹیکل رائٹنگ ہی کروا لے، ہے کوئی جو۔۔۔۔۔۔۔۔ کام دے دے۔
ابا جی کہا کرتے ہیں “گھنڈ چُک لیا تے نچن توں ڈرنا کی”۔ تو کام کرنا تو شرم کیا۔ ہاں ہم مزدور ہیں اس میں کونسا کوئی شک ہے۔ ہم کام کرتے ہیں، اور معاوضہ لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں ملتا۔ صاحبو انٹرنیٹ پر میرے جیسے لاکھوں ہیں۔ انڈیا، فلپائن، بنگلہ دیش اور پاکستان۔ لاکھوں لوگ جو ایک وقت میں آنلائن ہوتے ہیں اور معمولی سے معمولی معاوضے پر بھی جھپٹ پڑتے ہیں۔ صاحب ہم یہ کام کرسکتے ہیں، صاحب کم سے کم ریٹ دیں گے، صاحب ہمارے پاس پوری ٹیم ہے، 24 گھنٹے کی سروس صاحب، بہترین کوالٹی صاحب۔ اور صاحب کی مرضی کہ وہ کس کو چنتا ہے۔ صاحب کیپچا کی تصاویر کی ڈیٹا انٹری کے لیے پونا ڈالر دیتا ہے، صاحب ایک آرٹیکل لکھنے کا ایک ڈالر دیتا ہے، صاحب ایک آرٹیکل ری رائٹ( ارے جناب اسی کو اپنے الفاظ میں لکھنے) کے ایک سے ڈیڑھ ڈالر دیتا ہے، صاحب ٹرانسکرپشن کرانے کے کم سے کم پیسے دیتا ہے۔ صاحب گورا ہے، صاحب امریکی ہے، صاحب یورپی ہے، صاحب کی ویب سائٹ ہے، صاحب چھان بورے سے آٹا بنوا کر پھر روٹیاں لگواتا ہے اور اپنی دوکان پر سجا لیتا ہے، صاحب اپنی سائٹ کی تشہیر کے لیے ای میل ایڈریس پر سپیم بھیجنے کے پیسے دیتا ہے، صاحب فیس بک اور ٹویٹر پر فین اور فالورز مانگتا ہے، صاحب سب کچھ کروا سکتا ہے، صاحب کے پاس پیسا ہے، وہ فحش کہانیاں بھی لکھوا سکتا ہے، فحش ویڈیوز بھی بنوا سکتا ہے اور ان میں اداکاری بھی کرواسکتا ہے۔ فری لانسر مزدور ہے، کرتا ہے، ہر کام کرتا ہے، پیسے کے لیے کرتا ہے۔ ای میل ایڈریس بیچتا ہے، کیپچا کی ہزار تصویریں دیکھ کر ٹائپ کرکے پونا ڈالر لیتا ہے، آرٹیکل ری رائٹ کرکے ایک ڈالر لیتا ہے، فورمز اور بلاگز پر سپیم پوسٹنگ کرکے پیسے لیتا ہے، سپیم میلز بھیجتا ہے، مزدور ہے نا، بھوکا ننگا ہے اور ڈالر آتے ہیں، کم آتے ہیں تو کیا ہوا آتے تو ہیں، یہاں تو وہ بھی نہیں ملتے، تو مزدور سب کچھ کرتا ہے، سب کچھ بیچتا ہے، عزت بھی بیچنی پڑے تو بیچتا ہے، کیا ہے انٹرنیٹ پر کسی کو کیا پتا چلے گا اگر کسی فحش فلم کے لیے اپنی آواز دے بھی دی تو؟
صاحبو بھوک بڑی ظالم ہے۔ رب بھی بھلا دیتی ہے، جو پالنہار ہے۔ بھلا دیتی ہے سائیں سب کچھ بھلا دیتی ہے، بڑی ظالم ہے یہ بھوک ۔ جب آنکھوں میں ڈالروں کے سپنے اتر آئیں تو پھر حلال حرام کس کو دکھتا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ بس کھانے کو مل جائے، ارے کھانے کو تو ملے، جہاں بھوک برستی ہو وہاں کون دیکھتا ہے کہ آرٹیکل کو ری رائٹ کرکے وہ کسی کی امانت چوری کررہا ہے، وہاں کون دیکھتا ہے کہ “آنلائن جابز: ایڈسینس، ڈیٹا اینٹری، فارم فلنگ جابز” تو یہ دیکھے سوچے بغیر کہ حلال ہے کہ حرام بس چھ ہزار، دس ہزار کی انٹری فیس جمع کرا کے دھڑا دھڑ ڈالر بنانے میں لگ جاتا ہے۔ جیوے ڈالر، اعداد و شمار کا کھیل، جب تک ڈالر سائیں ہے تب تک موج ہے، ڈالر سائیں نہ ہوگا تو دیکھا جائے گا۔ سائیں یہ سب کچھ اعداد کا ہی تو کھیل ہے۔ اتنے کلک ہوگئے تو اتنے عدد ملیں گے۔ اب وہ کلک کسی نے کیسے بھی کیے ہوں، چار دوست مل کر اپنی ہی ویب سائٹ پر روزانہ ایک ایک کلک کرلیا کریں تو کون دیکھتا ہے جی، پر رب تو دیکھتا ہے نا۔ پر کون دیکھے اس دیکھنے کو، یہاں تو پوری پوری کمپنیاں بنی ہوئی ہیں اس کام کے لیے، آنلائن جاب کرو جی، ڈالر کماؤ جی، دس ہزار سے تیس ہزار کماؤ جی۔ لوگ کماتے ہیں جی۔ ابھی پچھلے ماہ میرا دوست میرے پاس آیا شاکر پاء جی گھر میں آٹا لانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ انجینئیر ہے وہ، ٹیکسٹائل انجینئیر۔ ابا جی کو گولڈن ہینڈ شیک ملا تھا نیشنل بینک سے تو انھوں نے ملنے والی رقم اس کی تعلیم پر لگا دی اب اسے نوکری بھی نہیں ملتی۔ کہنے لگا پاء جی اس میں حقیقت ہے کہ نہیں؟ میں بہن کا زیور رکھوا کر اس کی فیس دوں گا اور یہ کام کرنا ہے۔ میں نے کہا بھائی مجھ سے پیسے لے لو، زیور نہ رکھواؤ وہ مکر جائے تو کون ذمہ دار ہوگا۔ اسے چھ ہزار دیا اور اس نے چھ ماہ کی ممبر شپ لی۔ پتا نہیں اب کام کررہا ہے کہ نہیں۔ مجھے کوئی امید نہیں میری رقم واپس ہوجائے گی، پر بھوک بڑی ظالم ہے سائیں۔ اور زندگی بڑی اوکھی ہے۔ اس کا احساس آج بڑی شدت سے ہورہا ہے۔
ابا جی رکشہ چلاتے ہیں، چنگ چی رکشہ جسے لوڈر رکشہ کہتے ہیں۔ آٹھ بازاروں میں ایک جوتوں کی مارکیٹ میں ہوتے ہیں، سیزن ہو، جیسے آج کل سکول کھل رہے ہیں پھر سے، تو اچھا کام مل جاتا ہے لوڈنگ کا۔ سیزن نہ ہو، جیسے اگلے ایک آدھ ماہ میں ہوجائے گا، تو سارا سارا دن وہاں کھڑے رہنا پڑتا ہے کوئی کام نہیں ملتا۔ پھر وہ گھر آکر فرسٹریشن نکالتے ہیں، آج سارا دن کوئی کام نہیں ملا، پریشانی، کیا بنے گا ہمارا۔ تو ہم انھیں تسلی دیتے ہیں کہ ایسے بھی ہوتا ہے، انسانوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ ہوجائے گا ٹھیک۔ آج یہ کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ میری جوتوں کی مارکیٹ انٹرنیٹ ہے جہاں میں اپنی ہتھ ریڑھی لیے بیٹھا رہتا ہوں، آنے جانے والوں کو تکتا رہتا ہوں، شاید کوئی کام مل جائے، شاید کوئی پرانا گاہک ہی بلا لے، شاید کہیں سے پھنسی ہوئی رقم آجائے، شاید۔۔۔۔۔۔۔ زندگی شاید پر چلتی ہے، فری لانسنگ ویب سائٹس کو کھنگالتے ہوئے، نئے نئے کام تلاشتے ہوئے، شاید یہ بھی میں کرسکوں، ہاں ٹرانسکرپشن کرسکوں گا، چلو ٹرائی کرتے ہیں، ری رائٹنگ مشکل تو نہیں چلو ٹرائی کرتے ہیں، کیوں نا کیپچا ڈیٹا اینٹری کا ہی کرلیا جائے پونا ڈالر تو مل ہی جاتا ہے ایک گھنٹے کا، اور اگر کبھی ترجمے کی کوئی جاب نکل آئے تو وہاں اپنا ریزیومے بھیجنا، جہاں سے اکثر جواب ہی نہیں آتا۔
زندگی بڑی مشکل لگتی ہے، ایک ایسے فیز میں جب آپ زیر تعمیر ہوں۔ میرے جیسا جو جاب بھی چاہتا ہے اور جس کے پاس کوئی قابل ذکر ہنر بھی نہیں۔ گرافکس ڈیزائننگ؟ نہیں جی۔، ویب ڈویلپمنٹ؟ نہیں جی ورڈ پریس تھوڑا سا جانتا ہوں جی لیکن ویب ڈویلپمنٹ نہیں جی، پروگرامنگ؟ سی شارپ تھوڑی سی آتی ہے جی پر کبھی پروفیشنل ٹیسٹ یا کام نہیں کیا جی بس ٹیکسٹ پروسیسنگ کرتا ہوں جی کارپس لنگوئسٹکس کے لیے سوری جی،۔ تو پھر پیچھے یہی رہ جاتا ہے کہ ترجمہ کرلیا جائے، تو ترجمہ کرتا ہوں لیکن یہ کام کم کم ملتا ہے بہت سارے لوگ ہیں اس میں بلکہ بڑے پروفیشنل لوگ ہیں، میرے جیسے کئی دھکے کھاتے پھرتے ہیں “پروفیشنل ٹرانسلیٹر” کا ٹیگ لگائے پھرتے ہیں، ترجمہ نہ ملے تو پھر کیا کریں؟ لسانیات کے حوالے سے کبھی کوئی جاب نکل آتی ہے اردو یا پنجابی کا کورس ڈویلپ کرنا یا ایسا کوئی کام۔۔۔ایک آدھ ملا بھی لیکن کبھی چھوٹ بھی جاتا ہے۔ پنجابی کی بات کرو تو گورمکھی کی بات ہوتی ہے، سکھوں والی پنجابی، اردو کی بات ہی کم ہوتی ہے ہندی کی بات ہوتی ہے زیادہ یعنی پھر ادھورا پن۔ لے دے کر پھر رائٹنگ، ری رائٹنگ، ڈیٹا انٹری، کیپچا ڈیٹا اینٹری، ورچوئل اسسٹنٹ، یہ رہ جاتی ہیں لیکن ان کے لیے درکار وقت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میرے جیسا پارٹ ٹائمر نہیں کرسکتا۔ سو چپ رہ جاتا ہے لیکن منصوبے بنانے سے نہیں ٹلتا چل یار اپنا بلاگ شروع کرتے ہیں۔ باقاعدہ لکھا کریں گے، گوگل ایڈسینس لگائیں گے اور کمائیں گے، لیکن دل نہیں مانتا، یا لکھا نہیں جاتا، انگریزی میرے لیے کوئی نئی چیز نہیں، پر لکھا نہیں جاتا۔ نہ ادھر ہوا جاتا ہے نہ ادھر۔ اسی دُبدھا میں زندگی گزرتی جاتی ہے۔ عجیب زندگی ہے ۔

قيس و فرہاد ، وامق و مومن
مرگئےسب ہی کياوباہےعشق

پاکستان پیپلز پارٹی و مولانا ابولکلام آزاد

آج کل  مولانا ابولکلام آزاد په بھت کچھ لکها جارها هے. بھت سارے بلاگرز سمیت ڈاکٹر اے کیو خان و حامد میر نے بھی جنگ اخبار میں پچلے چند دنوں میں کالمز تحریر کیے هیں.هم نے کچھ پڑھنے کی کوشش کی اور کچھ لکها بھی تھا.وه سھی تھا یا غلط لیکن یه سچ هے که اس بلاگ کے بعدکھل کر تنقید ھوئی مزھ آیا آگهی کی نیی منازل کھلیں.اور سوچ کو وسعت ملی . چند گذارشات جو که شیءر کرنا چاهوں گا تاکه ادراک مکمل هوسکے.
(بلاگ لنک
http://junaidrazazaidi.tumblr.com/post/70286329368)
سابقه بلاگ کا لنک..

بابایے قوم محمد علی جناح کے مقابلے کا عوامی لیڈر ھندوستان کی تاریخ میں نھیں گذرا.یه ان کے عوامی هونے کا هی نتیجه تھا که ھندوستان کے مسلمانوں نے مولانا ابولکلام آزاد جیسے جید کی اقتدا چھوڑ دی.

میجر چوھان نے نوایے وقت میں اور حامد میر نے جنگ اخبار میں جو کالم لکهے هیں اس کے مطابق مولانا مسلمانوں کی جداگانه ریاست کے خلاف تو تھے لیکن ان کے پاس امت مسلمه کے حوالے سے کویی پروگرام نه تھا.اس کے علاوه ایک جگه اور مولانا په طنز تھا که مولانا مسلم ریاست کے خلاف تھے.

میں نے مولانا کے حوالے سے شورش کاشمیری کے اخبار چٹان کی تلاش کی تو کچھ مواد حیدر آباد سے شجاعت بھایی کے پاس سے حاصل هوا که جس سے یه ثابت هوا که مولانا جداگانه ریاست کے خلاف نه تھے اگر مولانا جداگانه ریاست مسلمه کے خلاف هوتے هوتے تو جنگ عظیم کے بعد تحریک هجرت کو سپورٹ نه کرتے بلکه تحریک هجرت کے لیے مولانا فرنگی و مولانا ابولکلام کے مشھور متنازعے فتاوے بھی موجود هیں.سلیمان ندوی کو لکها گیا خط بھی واضح ثبوت هے که الحلال کے مقاصد میں خطه ارض کا حصول بھی ایک ذریعه دکهتا هے.

جھاں تک میری رسایی هویی یا یوں کهیں که میری سمجھدانی نے کام کیا تو مولانا آزاد خود مختار ریاست کے خلاف نھیں تھے بلکه مولانا آزاد ریاست کے لیے ھجرت کے خلاف تھے.بات تو عجیب سی هے لیکن مولانا کا موقف اس سلسلے میں کچھ اس طرح تھا جناح تم ان کو جو دو گے یه اس سے زیاده یهاں چھوڑ کے جاییں گے. یه بھت ساری قوموں کا ملاپ هوگا.سب کا اپنا تشخص هوگا جو نوجوان اپنے تشخص کو دفنا رهے هیں وه دوباره نه پاییں گے.

یوپی سے پاکستان جانے والے ایک گروہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“آپ مادر وطن چھوڑ کر جارہے ہیں آپ نے سوچا اس کا انجام کیا ہوگا؟ آپ کے اس طرح فرار ہوتے رہنے سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہوجائیں گے اور ایک وقت ایسابھی آسکتا ہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جدا گانہ حیثیتوں کا دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہوں۔ بنگالی، پنجابی، سندھ، بلوچ اور پٹھان خود کو مستقل قومیں قرار دینے لگیں۔ کیا اس وقت آپ کی پوزیشن پاکستان میں بن بلائے مہمان کی طرح نازک اور بے کسی کی نہیں رہ جائے گی؟ ہندو آپ کامذہبی مخالف تو ہوسکتا ہے ،قومی مخالف نہیں۔ آپ اس صورت حال سے نمٹ سکتے ہیں مگر پاکستان میں آپ کو کسی وقت بھی قومی اوروطنی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑجائے گا جس کے آگے آپ بے بس ہوجائیں گے”۔
ایک موقع په کها که آپ بنگال لے جانے کی بات کرتے هیں آپ چند سالوں میں اسے  بوجھ تصور کریں گے.آپ سے یه سنبھلنے کے نھیں.

اس کے برخلاف قاعد اعظم قاعد اعظم کا وژن بڑا تھا.قاعد اعظم قوم کی تعریف خطه ارض پر بسنے والوں کو گردانتے تھے. قاعد اعظم نے بمبی کی میمن تاجر برادری سے خطاب کرتے هویے کها تھا که جناح کو مملکت خداد کی معیشت چلانی هے میرے ساتھ چلیں وه وطن آپ کا اپنا وطن هوگا وهاں نسلوں کی بقاء هے آپ کی توقیر هماری اولین ترجیح هوگی

حیدر آباد دکن عثمانیه یونیورسٹی کے اساتذه کے وفد کو پاکستان کی دعوت دیتے هویے امت مسلمه کا واسطه دیا اور کها که میں آپ کو آپ کی گارنٹی دیتا هوں که آپ آزاد هوں گے که جھاں دل چاهے جاییں  چاهے مسجد میں جاییں جاییں گرجا یا مندر ایک آزاد اسلامی ریاست کی درسگاهیں آپ کو پکاررهی هیں.
اور پهر دنیا نے دیکها که کس طرح عثمانیه یونیورسٹی سے ھزاروں اساتذه اکرم و طلبه کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان هجرت کی.جو کراچی کے پرانے باشندے هیں وه حیدر آباد کالونی کے پرانے مکینوں کو جانتے هوں گے که وه یا ان کے اجداد کهاں سے آیے تھے.

جب تک قاعد اعظم و لیاقت علی خان حیات رهے معاملات مختلف تھے.پهر مخصوص فوجی و مخصوص طبقه طریقه حکمرانی سیکه کر اپنے مخصوص رنگ میں آگیا.اور یهی ارض پاک کی بدنصیبی تھی.ایوب خان نے ھندوستان سے آیے مسلمانوں کو سمندر کا رسته دکها یا تو انتھا ذوالفقار علی بھٹو کے نفرت انگیز رویے کا شکار په   قوم هویی.ذوالفقار علی بھٹو یا پیپلز پارٹی مولانا ابولکلام آزاد کی همنوا نکلی اور مشرقی پاکستان کو بوجھ سمجھ کے اتار دیا گیا.الیکشن هارنے کے باوجود انتقال اقتدار نه کرنا درحقیقت مھر تھی ابوالکلام کے اقوال په.
اسی طرح لینگیویج بل بھی مولانا ابولکلام آزاد کو سچا ثابت کرنے کی کوشش تھی.پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ مولانا کی تقاریر کی عملی تفسیر بنی.

اسی طرح پاکستان میں لسانیت کو
فروغ ملا اور زبان و گروهی اختلاف
همیشه پیپلز پارٹی کی کوکھ سے جنا گیا.کوٹه سسٹم ، احساس عدم تحفظ ، چوھا که کر پکارا جانا یه سب پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفے هیں جو وه هندوستان سے آیے مسلمانوں کو اور ان کی اولادوں کو وه دیتی رهی.اس طرح قاعد اعظم کو جھوٹا اور ابولکلام آزاد کو سچا ثابت کرنے کیلیے پیپلز پارٹی نے همیشه هر اول دستے کا کردار ادا کیاهے.

نجانے ١٦دسمبر کی تاریخ هم ١٨ جنوری کو دھرانے کا کیا عزم کیے بیٹھے هیں.که سندھ حکومت من مانا نظام مسلط کرنے کے درپے هے.هم نے آزاد سندھ کی آواز سنی ، گریٹر پنجاب کا نعره لگا.ایک دفعه ایم کیو ایم کے قاعد الطاف حسین نے ایک نیے پاکستان کے نقشے کا بھی ذکر کیا تھا، ٢٠١٤ کا سال بھی ذکر هواتھا.همیں یقین نھیں آیا تھا مجھے یاد هے جب دی گریٹ گیم کی بات هویی تو میرے جیسوں نے مذاق اڑایا تھا
لیکن آج جب ٢٠١٤ شروع هونے جارها هے لگتا هے بساط بچھ چکی هے. اور هر دفعه کی طرح پیپلز پارٹی هی مھره نننے جارهی هے.
Image
آج ٦٥برس گذر جانے کے بعد اگر مولانا ابولکلام آزاد په بات هورهی هے که اے کیو خان جیسے لوگ مولانا ابولکلام آزاد کے ویوز سراه رهے هیں اور هم ان کا حواله استعمال کررهے هیں تو یه من حیث القوم هماری ناکامی هے اور اس کی ذمه دار صرف پیپلز پارٹی هے.
لیکن ایک بات بڑی اھم رقم کرتے چلیں که اتنا کچھ هوگیا لیکن کهیل ابھی ختم هوا نھیں جیت بالآخر فلسفه محبت کی هوگی اور قاعد اعظم کی سوچ بالآخر فتحیاب هوگی.انشاءالله.

Moving ahead against all odds

as usual classy write up by shariqa ahmed

Shariqa Ahmed

As integral part of society; women are rapidly joining workforce. It’s an open truth that working women have to face problems just by the virtue of being women. And as being a Pakistani Women, they are referred to those as a paid employment. The social attitude of them are much paused behind the law. There has been a criteria fixed for this attitude which considers to be fit for suitable jobs that are associated with women in Pakistan.

Image

Women find employment easily as nurses, teachers, babysitter & etc. and as educated women opt for jobs like doctors, engineers, secretaries as of qualifications. When it comes to compensation the law proclaims equality but here it is seldom found. The Pakistani women are capable of work but they are more efficient in governess.  It should be appreciated that women in Pakistan are enthusiastic to support their families in the running conditions of…

View original post 414 more words