بچپنے کا ذکر هے که جب کویی خواب دیکها کرتے تھے اور اس کا تذکره کرتے تھے تو بڑے بوڑھے خواب کے تذکرے کو منع فرماتے تھے میری نانی محترمه کها
کرتی تھیں که خواب کی تعبیر جس کسی کو آتی هو خواب اسے بتانا چاهیے.عمومی انداز سے اور عام آدمی سے خواب کا ذکر سبکی لاتا هے. مثال کے طور پر اگر کویی دیکهتا که فلاں کی میت هوگیی هے تو کهتیں صدقه کرو الله نے عمر بڑھا دی.هم خوب مذاق اڑایا کرتے تھے.لیکن آج بڑے بذرگ تو دنیا میں رهے نھیں لیکن ان کی باتیں ره گیی هیں جن په هم کو تو ایمان وقت کے ساتھ ساتھ آتا گیا.
صوبه سندھ کے چند وزیر دوستوں نے بھی ایک خواب دیکها تھا اور اس خواب کو عملی جامه پهنانے کیلیے بلدیاتی ترامیم کی گییں ، نیی حلقه بندیاں
کی گییں لیکن تعبیر ملی آج ٣٠ جنوری دو رکنی ھایی کورٹ کے بنچ سے . جتنی تعبیر سمجھ آیی اس کے مطابق
سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں کی جانے والی ترمیم کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
کراچی میں پیر کو جسٹس سجاد علی شاہ نے عدالت کے دو رکنی ڈویژنل بینچ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
اسی بارے میں
فیصلے میں مقامی حُکومتوں کے ترمیمی بل 2013 کی تیسری ترمیم کو سندھ لوکل باڈیز ایکٹ 2013
سے متصادم قرار دیتے ہوئے اُسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کی رو سے یونین کونسلوں کی جگہ یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔
فیصلے میں رواں برس 13 اور 21 نومبر کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں جو حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر، لاڑکانہ اور کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے تناظر میں جاری کیے گئے تھے۔
عدالت نے یہ تجویز بھی دی ہے اگر نئی حلقہ بندیوں کے لیے سپریم کورٹ سے سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی اجازت مل جاتی ہے تو صوبائی حکومت ایک آزاد کمیشن بنائے جو تمام تر قوانین اور ضابطۂ کار کے مطابق حلقہ بندیوں کے معاملے کو دیکھے اور ایک آزاد فورم فراہم کرے جہاں حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلوں کی سماعت ہو سکے۔
جب سندھ و بالخصوص کراچی کے حوالے سے جو خواب و نظام سامنے لایا گیا تو اس وقت بھی یم نے یهی کها تھا دیوانے کا خواب هے دیوانگی کی باتیں هیں.اپنے چند عوامی فیصلوں میں سے ایک آج قلم بند هوا.اور دیوانے کے خواب کی تعبیر ثابت هوا.لیکن یه فیصله همارے نزدیک ادھورا ٹھرا کیونکه اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں وقت کا تعین کرتی اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فوری حل نکالتی تو بھت بھتر صورتحال هوتی.بحرحال یه سندھ حکومت کی ناکامی اور اس نظام کے مخالف قوتوں کی بھت بڑی کامیا بی هے.
بحرحال اپنے لوکل باڈیز کے حوالے سے آخری بلاگ میں هم نے کها تھا که الیکشن هوتے نھیں دکهتے وجه کیا بنے گی همیں نھیں پتا لیکن یه الیکشن نهیں هونے کے اور آج پهر اپنی بات په قایم هیں که وجه سپریم کورٹ بنے ، سندھ حکومت بنے یا کویی اور الیکشن جنوری تو دور مارچ میں بھی نظر نھیں آرهے. وجوهات کل تحریر میں لاییں گے.لیکن چلتے چلتے دعایے فقیر یه هے که “اے الله رحمان ملک کو عزیز آباد کا رسته بھلادے.”اور اب کویی تعویز نه چلے.
جے رضا زیدی.