انٹرنیٹ سوشل میڈیا اور سائبر کرائم

اس ورچوئل دنیا کو دیکھنا، جاننا اور اس کا حصہ ہونا دلچسپ ہے، خوفناک بھی اور بے حد جوش بھرا بھی کہ ہم ایک ایسے احتجاج، ایک ایسے مظاہرے، ایک ایسی بحث، ایک ایسے مکالمے، ایک ایسے منظر نامے اور ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں کوئی بھی، کہیں بھی، کسی بھی موضوع پر کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہاں ہر قسم کے لوگ ہیں، ہر نقطہ نظر کے لیے مختص فیس بک صفحات ہیں، ہر کسی کے حق میں اور مخالفت میں پوسٹس، ٹویٹس اور ٹرینڈز کا ایک لامتناہی تسلسل ہے، ہر کوئی بااختیار ہے کہ وہ جب چاہے کسی بھی مکالمے کا حصہ بن جائے اور جہاں جی چاہے اپنا کی بورڈ اٹھا کر سب سے مقاطعہ کر لے۔ آپ سب ایک ایسی سائبر دنیا کی تعمیر کر رہے ہیں جہاں کوئی حدودوقیود نہیں، ہو شخص دوسروں سے اتفاق یا اختلاف کرنے میں آزاد ہے، ہر کسی کی دلچسپی کا سامان موجود ہے، سب کچھ سب کی دسترس میں ہے۔ اور یہی انٹرنیٹ کی بنیاد ہے؛ آزادی، رسائی اورخود مختاری۔

آپ ایک آئن لائن وائرل زدہ معاشرت میں اپنے اپنے کی بورڈ اور فرنٹ اور بیک کیمروں کے ساتھ ہمہ وقت ان گنت انجان اکاونٹس سے میل جول میں مصروف ہیں۔ آپ سب اس سنسنی سے واقف ہیں جو کسی بھی متنازع معاملے یا کسی بھی ممنوعہ موضوع پر کچھ بھی پوسٹ کیے جانے سے پہلے آپ کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے۔ آپ سب ایک انٹرنیٹ کنکشن، ایک لیپ ٹاپ اور ایک ویب سائٹ کے ذریعے دنیا کی ہزاروں لاکھوں سکرینوں پر، ہزاروں لاکھوں ٹائم لائنوں پر ابھرتے ہیں، سکرول کیے جاتے ہیں، لائیک کیے جاتے ہیں، شیئر کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سو چالیس لفظوں میں دنیا بھر میں ری ٹویٹ ہونے کی صلاحیت پہلے کہاں کسی کے پاس تھی؟ کیا یہ ممکن تھا کہ ہر فرد معلومات، اطلاعات، خبروں اور افواہوں کے اس بہاو میں کود کر اس کا حصہ بن سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ سب ایک ایسی دنیا کے اہم ترین لوگ ہیں جہاں حقیقت وہی ہے جو آپ کی سکرین پر جھلملاتی ہے، آپ کے نوٹیفیکیشنز میں نظر آتی ہے یا آپ کی ٹائم لائن پر ابھرتی ہے۔

یہ ایک ایسا طلسم کدہ ہے جہاں متنازع ہونے، مشہور ہونے یا اہم ہونے کے لیے برقت اور ہمہ وقت آن لائن رہنے کی ضرورت ہے، اب آپ کو خبروں میں نہیں نیوزفیڈ میں رہنے کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اب آپ کو اگلے گھنٹے، اگلے پہر، اگلے دن یا اگلے ہفتے کے لیے نہیں ابھی اور اسی وقت کے لیے لکھنا، تصویر کھینچنا یا پوسٹ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو اہم، طاقتور اور موثر بنا رہا ہے، آپ کی بات لوگوں تک بلا روک ٹوک پہنچ رہی ہے، آپ کو کوئی بھی کہیں بھی پڑھ سکتا ہے، آپ تک رسائی لامحدود ہے۔اب ان موضوعات پر باآسانی بات ہو رہی ہے، بحث ہو رہی ہے مکالمہ جاری ہے جن کے بارے میں لکھنے یا بات کرنے کا تصور بھی مشکل تھا۔ مذہب، سیاست، ادب، سماج، فکر و فن، فلسفہ، شوبر، تعلیم۔۔۔۔۔ ہر شعبہ زندگی کے متنازع ترین اور ممنوع موضوعات نہ صرف زیرِ بحث ہیں بلکہ ان پر ایک مسلسل مکالمہ جاری ہے۔ آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنی اپنی بات کر رہا ہے، یہ ایک ایسی مثبت پیش رفت ہے جو اس سے پہلے پاکستان میں ممکن نہ تھی۔ اس سے پہلے بلوچوں پر ہونے والے مظالم کبھی اتنا کھل کر سامنے نہیں آئے تھے، فوج پر اس انداز میں کھلے عام تنقید کبھی بھی ممکن نہیں تھی، مذہب پر مکالمے کی یہ آزادی کہاں میسر تھی؟سیاستدانوں کی جو سیاسی شہادتیں رکیں تھمیں اسکی وجہ بھی سوشل میڈیا ہے۔

مگر کیا ہم سب جو انٹرنیٹ کی اس کھلی ڈلی آزادی میں بے فکری سے سانس لے رہے ہیں، اُن پابندیوں کے لیے تیار ہیں جو مقتدر حلقے تجویز کر رہے ہیں اور مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بتدریج منظور بھی کر رہے ہیں؟

کیا ہم ریاست کے اس جبر کا سامنا کرنے کو تیار ہیں جو قومیت کی ایک مخصوص تعریف، مذہب کی ایک خاص تعبیر او ر معاشرت کی ایک محدود صورت کے سوا ہر نقطہ نظر کی آواز کو کچلنے کے لیے ہم پر مسلط کیا جانے والا ہے؟ ہم یہ سب ماضی میں ہوتا دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ریاست کے ادارے اور مختلف سیاسی، عسکری اور مذہبی گروہ اپنے ناقدین کو خاموش کراتے ہیں۔ یہ روزنامہ امروز کو قومیانے کی صورت میں بھی ہوا، یہ اخبارات کے اشتہارات روکنے کی شکل میں بھی ہوا، یہ حامد میر اور رضا رومی پر ہونے والے حملوں کی طرز پر بھی ہوا۔۔۔۔۔۔ یہ سلیم شہزاد اور زینت کی مثالوں سے بھی واضح ہے۔ حال ہی میں طلعت حسین ، مطیع اللہ جان،مرتضی سولنگی جو کچھ بھگت رہے ہیں وہ سب بھی ہمارے سامنے ہے۔

ہم نے یوٹیوب پر بندش بھی دیکھی ہے، ہم نے پی ٹی اے کے ہاتھوں کئی بلوچ ویب سائٹس کی بندش بھی دیکھی ہے اور یہ سب کسی بھی قانون کی غیر موجودگی میں ہو چکا ہے، تو سوچیے ایک قانون کی موجودگی میں کیا کچھ ممکن ہے۔

سائبر کرائم بل ن لیگ کا تحفہ خاص ہے۔ یہ قانون یقیناً ہمارے سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک ایسا حربہ اور ہتھیار بن رہاہے جو ان کے نقطہ نظر کے خلاف بولنے والوں کی زباں بندی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اگرچہ سائبر جرائم کے لیے قوانین بے حد ضروری ہیں مگر ہمیں علم ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام کی آڑ میں ‘نظریہ پاکستان، اسلام اور اخلاقی اقدار’ کے تحفظ کی وہ شقیں بھی منظور کی جا رہی ہیں جو ماضی میں بھی ریاستی جبر کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ سائبر سیکیورٹی، صارفین کے تحفظ اور آن لائن جرائم کی بیخ کنی کے لیے سائبر جرائم پر قانون سازی کقنی اہم ہے لیکن کیا اس قانون کا عملی اطلاق اس انداز میں ہو سکے گا کہ بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں؟ ہمیں پوری طرح سے علم ہے کہ جب وطن دشمنی یا مذہب دشمنی کے الزامات کے تحت ایک ویب سائٹ تک رسائی منقطع کی جاتی ہے تو پھر اسے بحال کرانا کس قدر ناممکن ہے، ہم جانتے ہیں کہ جب کسی کے خلاف توہینِ مذہب یا غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو وہ چینل کس طرح گھٹنے ٹیکتا ہے، ہمیں خبر ہے کہ قومی سلامتی، حب الوطنی، نظریے اور مذہب کے نام پر کس طرح سے ریاستی ادارے اور شدت پسند گروہ اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کا ‘علاج’ کرتے ہیں۔۔۔۔

کیا ہم اس ایک نکتے پر اکٹھے ہیں کہ آزادی اظہارِ رائے ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور حب الوطنی، نظریے یا مذہب کی بنیاد پر اسے محدود نہیں کیا جا سکتا؟

کیا ہم سب اس ایک نکتے پر متحد ہیں کہ ہر فرد کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق بات کرنے کی پوری آزادی ہے؟ کیا ہم اس آزادی کی اخلاقیات جو ہمیں تشدد پر اکسانے، غارت گری پر آمادہ کرنے، نفرت آمیز مواد کو پھیلانے سے روکتی ہے، پر متفق ہیں؟ کیا ہم اس ایک نکتے پر اکٹھے ہیں کہ آزادی اظہارِ رائے ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور حب الوطنی، نظریے یا مذہب کی بنیاد پر اسے محدود نہیں کیا جا سکتا؟ کیا ہم اس بات کو تسلیم کر تے ہیں کہ اختلاف رائے کی آزادی اظہاررائے کے حق کے مساوی ہے؟ کیا ہمارے درمیان یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ کسی کے جذبات مجروح ہونے یا کسی مقتدر ادارے کی حرمت پر حرف آنے یا کسی مقدس نظریے کے صداقت مشکوک ہونے کی بناء پر کسی فرد کو بات کرنے سے روکنے کا اختیار معاشرے اور ریاست کو نہیں دیا جا سکتا؟ کیا ہم اس بات پر کسی بھی طرح اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہم کسی بھی قسم کی مسلط کردہ اخلاقیات، تصور قومیت یا مذہبی تشریح کو رد کرنے کا حق رکھتے ہیں، کیا ہم اس کے اہل ہیں کہ اپنی ویب سائٹ کے لیے صحافتی ضابطہ اخلاق خود وضع کر سکیں جو آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کے لیے ہو نہ کہ اسے پابند بنانے کے لیے؟

مجھے لگتا ہے کہ اس اتفاق رائے کے بغیر ہم کبھی بھی اپنی اس آزادی کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور بہت جلد پی ٹی اے اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کسی نہ کسی ویب سائٹ کے مدیر کے لیپ ٹاپ اور مواد کی ضبطی کی خبریں سامنے آنے لگیں گی، جلد ہی ہمیں پتہ چلے گا کہ کسی نہ کسی ویب سائٹ تک رسائی اس لیے منقطع کر دی گئی ہے کیوں کہ اس کا مواد ریاستی مفادات کے منافی ہے

ہمیں یقیناً اندازہ ہے کہ سائبر جرائم پر قانون سازی کتنی اہم ہے لیکن کیا اس قانون کا عملی اطلاق اس انداز میں ہو سکے گا کہ بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں؟

آزادی اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کے حق کو تسلیم کرنا اور کرانا ہی اس آزادی کی بنیاد ہے، اور اس حق کا تحفظ کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری بھی ہے۔

 میرا بھائی عامر لیاقت

سوچنا اور لکھنا ایک تسلسل کا نام ہے اگر اس میں وقفہ آجائے تو دوبارہ قلم کی نوک سیدھی ہونے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔سو آج اسی مشکل کا شکار ہیں اور وجہ یہ ہے کہ کسی کا پیغام ایک امانت ہے اور  مجھے یہ اذن ہوا کہ یہ امانت قارئین  تک پہنچائی جائے۔

اس امانت کو تحریر کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ ہم عامر لیاقت فین کلب کا حصہ تھے اور ہیں کیوں نہ ہوں میرا عامر لیاقت حسین سے تعلق اسوقت کا ہے جب ہم اپنی نانی و نانا جنہیں ہم اماں اباجان کہا کرتے تھے اُنکی انگلی پکڑ کر طارق روڈ کمرشل ائیریا میں انکے دفتر مسلم لیگ ہاؤس جایا کرتے تھے۔ہمارا اور ہماری فیملی کا شیخ  لیاقت حسین کی فیملی سے پینتیس ۳۵سالہ محبت کا احترام کا عقیدت کا رشتہ ہے جو تازندگی انشاءاللہ برقرار  رہےگا۔

پچھلے دنوں ٹوئٹر پہ ایم کیو ایم کے ایم این اے علی رضاعابدی سے عامر بھائی کی کچھ نوک جھوک ہوگئی بات بڑھی تو دونوں طرف کے لوگ میدان میں کودے اور بات بڑھتے بڑھتے الزامات پہ آگئی۔ہم سب ٹی وی کھول کے بیٹھے تھے کہ جانے کیا ہونے والا ہے کہ عامر لیاقت نے خاندان اور قوم کا سر یہ کہ کر فخر سے بلند کردیا کہ مجھے حدیثوں میں بھی ملا اور میرے والد کی ہدایت اور تربیت یہی ہے کہ میں اپنے والد کے دوستوں اور انکی اولاد کا احترام کروں اس لیئے اخلاق عابدی(سابق ایم این اے) صاحب جو کہ میرے والد کے دوست تھے انکے بیٹے علی رضا عابدی اور میں اب بھائی بھائی ہیں میرے رویے پہ علی رضا عابدی اور اخلاق عابدی صاحب سے میں معافی کا طلبگار ہوں۔

ہم نے یہ پروگرام ری پیٹ کر کر کے اپنے بیٹوں کو دکھایا اور کہا کہ بیٹا دیکھو اور سیکھو باپ کی عزت کسے کہتے ہیں اور بیٹا ہو تو عامر لیاقت جیسا بلکہ ہم جو یہاں تک سوچ بیٹھے کہ پاک پروردگار نے گر اب بیٹا دیا تو ہم نام بھی عامر لیاقت ہی رکھیں گے۔یہی سوچتے سوچتے ہم نیند کی وادی میں کیا پہنچے کہ خواب میں ہمارے اباجان کے دوست عامرلیاقت کے والد شیخ لیاقت حسین اباجی سے ملاقات ہوئی آپ نے حال احوال لینے کے بعد پوچھا کہ میرا ایک پیغام عامر تک پہنچاؤـ تم بچپن سے ہی آدھا سودا کیوں لاتے ہو جب کبھی مسالحہ لاتے ہو تو دہی بھول جاتے ہو دہی لاؤ تو پیاز بھولنا یعنی آدھ بات پہ عمل کرنا تمہاری پرانی عادت ہے۔ بیٹا عامر کو یاد دلاؤ کہ صرف اخلاق عابدی ہی میرے دوست نہیں تھے میرے یار غار تو فاروق ستار، عامر خان بہت زیادہ تھے۔زرین مجید ،کشور زہرہ،نسرین جلیل محمودہ سلطانہ کی ہم عصر تھیں۔میرے ساتھیوں میں سبزواری خاندان بھی تھا۔اور عامر تم نے تو میرے ان تمام دوستوں کا مذاق اپنے پروگرامز میں بنایا کسی کے کردار کا کسی کی جسمانی کمزوری کا تم بھونڈے مذاق بناتے رہے۔تم میرے عزیزوں میرے دوستوں میرے ہمنواؤں پہ را ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے رہے میری تحریک جس کو ہم نے فاروق ستار نے عمران فاروق نے برے وقتوں میں پروان چڑھایا تم اسی کی کشتی ڈبونے کے انتظامات کرتے ہو۔بیٹا تم نے عابدی سے معافی مانگی یہ بڑائی کی دلیل ہے لیکن  تم میرے رفیق فاروق ستار عامر خان سے اور ان بچے بچیوں سے یعنی میرے خانوادہ ایم کیو ایم سے جب تک معافی نہ مانگو گے یہ معافی اسوقت یہاں عالم ارواح میں صرف سیاسی چھچورا پن ہی سمجھی جائےگی۔

 بیٹا جنید اس تک جاؤ اور اسے بتاؤ کہ جن لوگوں نے محمودہ سلطانہ جیسی حب الوطنی کے شاہکار کو نہ چھوڑا جنہوں نے مجھ پہ کرپشن کے جھوٹے الزامات لگائے گر تم انکی طرف گئے تو تمہاری ماں تمہیں دودھ نہیں بخشے گی۔

اسی اثناء میں ایک زوردار آواز آئی کہ اٹھو بچوں کو اسکول چھوڑتے ہوئے  پیچھے سے ہرا مصالحہ اور دہی اور چاول لیتے ہوئے آنا ہم نے لسٹ بنائی اور تہیہ کرلیا کہ عامر بھائی کی طرح آدھا سودا نہیں لائیں گے۔

تحریر جنید رضا کراچوی

میرے میاں صاحب

ایک بھیانک عالمی سازش :
دراصل ہوا یوں کہ دنیا کے 80 ممالک کے سربراہان نے میٹنگ کر کے یہ سازش کی کہ نوازشریف کا قصہ ختم کرنا ضروری ہے ورنہ وہ پاکستان کو عالمی طاقت بنا دے گا اور پاکستان ترقی کر کے ساری دنیا سے آگے نکل جائے گا۔
 پہلے انہوں نے آئی ایم ایف کے سربراہ سے کہا کہ وہ فوری طور پر پاکستان سے قرضہ واپس مانگے مگر اس نے جواب دیا کہ مجوزہ شرائط کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے۔۔
پھر انہوں نے امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ بند کروایا۔۔۔ اس سے بھی کام نہیں بن سکا ۔ وہ ہاتھ ملنے لگے کہ نوازشریف تو دے مار ساڑھے چار کی طرح دن بہ دن بجلی گھروں کے افتتاح کرتا جا رہا ہے اس کا کیا علاج کیا جائے ۔۔۔
ایک سیانے نے مشورہ دیا کہ ورجن آئی لینڈ کی کمپنی موزیک فرانسیکا کا ریکارڈ چوری کروا کے اس میں شریف فیملی کا نام ڈال دیتے ہیں۔ ساتھ اپنے اپنے ملکوں کے لوگوں کا نام بھی شامل کرنا پڑے گا تا کہ کہانی سچی لگے۔۔ 
عالمی ٹھگوں نے بے چارے نواز شریف سے کھربوں روپے کی کرپشن کروائ. ان سے فنانس کمپنیوں, سرکاری بینکوں, قرآن پاک چھاپنے والی تاج کمپنی کے ہزاروں ارب روپے غبن کرائے گئے اور یہ ساری رقم میاں صاحب کے بنک اکاونٹس میں جمع کرا دی گئی.  قرض اتارو ملک سنوارو سکیم کا سارا پیسہ دھوکے سے میاں صاحب  کے اکاونٹ میں جمع کرایا گیا اور اس سے میاں صاحب کی مزید اربوں ڈالرز کی جائیدادیں اور کمپنیاں دنیا بھر میں بنا دئ گئیں. ان عالمی نوسربازوں نے فارن کرنسی اکاونٹس بند کروا کے اس رقم سے بھی میاں صاحب کی مزید پراپرٹی بنوا ڈالی. میاں صاحب تو پاکستان کو کرپشن فری ملک بنانا چاہتے تھے لیکن بے چارے اپنی بے پناہ کرپشن کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے.   
جب یہ سارے کام ہو گئے تو بالآخر پانامہ سازش منظر عام پر لائ گئی ۔۔۔ اس سازش میں جان ڈالنے کے لئے چار ملکوں کے سربراہان نے بھی استعفی دیئے اور دنیا بھر میں بے شمار  انکوائرئیاں شروع ہوئیں مگر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا. 
ایک دفعہ پھر عالمی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور زچ ہو گئیں کہ آخر نواز شریف جیسے ہر دلعزیز اور مقبول ہیرو کا کیا کریں ؟ ایک سیانے نے پھر مشورہ دیا کہ پاکستان میں ہی نواز شریف کے خلاف کچھ کیا جائے. چنانچہ ترچھی ٹوپی والے پٹھان کی منت کی گئی, شیخ رشید کو عدالت بھیجا گیا. فوج اور عدالت کو سازش میں شامل کر لیا گیا ۔۔۔ پھر جے آئی ٹی اور دیگر تفتیشی ادارے خریدے گئے ۔۔۔ تحریک انصاف کا سربراہ پہلے ہی یہودی ایجنٹ ہے ۔۔۔ اور آخر کار سب کی کاوشوں سے عالمی طاقتیں نواز شریف کو اس مقام پر لے آئی ہیں جہاں وہ سازشوں میں گھر چکے ہیں ۔۔۔ وہ تو شکر ہے میاں صاحب میں غیرت جیسی  دقیانوسی عادت نہ تھی ورنہ وہ جذبات میں آچکتے اور ہم میاں صاحب سے بھی محروم ہوچکے۔بن باپ کے حسن حسین مریم کیسے پلتے۔ اور یہ بھیانک عالمی سازش کامیاب ہو چکی ہوتی. . 

😂

رارارارا کا راگ

حب الوطنی و ضمیر جگاؤ مہم کا دور دورہ ہے ۔ ایسے میں حب الوطنی کی بڑی بڑی اسناد محض اس شرط میں مل رہی ہیں کہ انڈین ایجنسی را کو اور پاکستان میں موجود انکے ایجنٹوں کو گالی دینا اور گالی لکھنا ہی واحد شرط ہو سو ہم کہاں پیچھے رہنے والے تھے ہم نے سوچا آج ہم بھی محب وطن ہونے کا بھرپور ثبوت دیں اور رارارا کا راگ لاپ کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایلیمنٹ کو را ایجنٹ لکھ  کر گالی دے کر اپنی اسناد میں اضافہ کیا جائے۔

لیکن را اور اسکے ایجنٹوں کو گالی لکھنے سے پہلے سوچا پتہ تو کریں کہ آخر را کے کتنے اور کون کون ایجنٹ ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں یا پائے جاتے رہے ہیں کہ جن کو بھرپور لعنت ملامت کی جائے۔کتابوں کو تلاشا تو جانا کہ ہمارے یہاں جتنی بڑی تعداد میں غداری کے سرٹیفیکیٹ بٹے اتنے تو صدارتی ایوارڈ نہ بٹ پائے۔ ہم نے جانا کہ سرحدی گاندھی…. باچا خان غدار انڈین ایجنٹ…ولی خان غدار….اجمل خٹک غدار …جی ایم سید غدار انڈین ایجنٹ ….عطاو اللہ مینگل غدار …بگٹی غدار….خیر بخش مری غدار…..صمد خان اچکزئی غدار نتیجتاً اپنے گهر میں بم سے اڑا دیا گیا..خیر بخش کے ایک بیٹے کی تو لاش بهی نہیں ملی…بگٹی کے نام پر چند هڈیاں دفن کی گئیں..کیا مولا بخش…کیا علاوالدین…کیا حبیب جالب… یہاں تو غداروں کا جمعہ بازار لگ گیا تھا..

ایو خان کے دور حکومت میں بلوچ رہنما نوروز خان اور اس کے بھائيوں اور بیٹوں کو غدار قرار دے کر پھانسی دے دی گئی تھی جبکہ عطاءاللہ خان مینگل ان کے بھائي نورالدین مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، دود ا خان زرکزئي ، اور عظیم بلوچ قوم پرست شاعر گل خان نصیر کو بھی غدار قرار دیا جاتا رہا۔ ایوب خان کے دور میں انتہا ہی ہوگئی کہ مادر ملت فاطمہ جناح تک کو انڈین ایجنٹ لکھا اور پکارا گیا۔یحیی کے ہاتھوں مجیب جبکہ ضیا کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو غدار قرار پائے ۸۰ ۔ ۹۰ کی دہائی میں ایک لابی بینظیر بھٹو کو بھی سیکیورٹی رسک قرار دیتی رہی ہے۔ بلکہ ۹۹ میں تو میاں صاحب بھی عدالتی سطح تک پہ غدار قرار پائے۔

یہ تمام لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں تو غدار انڈین ایجنٹ پکارے گئے لیکن ان کی موت کے بعد ان کے نام کی یونیورسیٹیز بنیں ان کے ناموں سے فلاحی ادارے بنے ان کے نام سے شاہرائیں منسوب ہوئیں۔ان کی غداری کے خطبات بچوں کی درسی کتب کا حصہ قرار پائے اور وقت ضرورت ارض پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد میں ایسا بھی ہوا کہ ان کی غداری کو پس پشت ڈال کر انکو اہم عہدوں سے نوازا گیا۔عام زبان میں غدار قرار دینے والوں نے ہی محب وطن قرار دیا اور استعمال کیا۔

بھٹو کے دور میں نیپ کی پوری پارٹی کو غدار قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔نہ صرف نیپ پر پابندی لگی تھی بلکہ اس کے رہنماؤں کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔لیکن ضیاء الحق کا دور آتے ہی یہ سارے غدار محب وطن ہوگئے۔  جنرل ضیاء کے آمرانہ دور حکومت میں غلام مصطفیٰ کھر اور جام صادق علی کو ’را کا ایجنٹ‘ بتایا گیا اور ان کے نام اٹک سازش کیس کے حوالے سے آئے۔ لیکن پھر اسی کھر اور جام صادق علی کی غداری کی سند پھاڑ کر انہیں بوقت ضرورت اعلیٰ عہدوں پر بھی بٹھایا گیا۔

سو ہماری تو سمجھ ہی نہ آیا کہ ہم مادر ملت کو ،باچاخان کو ، بےنظیر بھٹو ،خیربخش مری یا ان اکابرین کو گالی کیسے لکھیں جن کے نام کی یونیورسٹیز میں ہمارے بچے پڑھتے ہیں سو ہم نے سوچا کہ موجودہ پکارے جاتے را سے فنڈنگ لینے والے انڈین ایجنٹ الطاف حسین ہی کو برا بھلا بول کے حب الوطنی کا کچھ ثبوت دے دیں۔لیکن ہمیں پھر بریگیڈئیر امتیاز یاد آگئے کہ آئی ایس آئی سربراھ کے بھجوائے پیسے تو الطاف حسین نے واپس کردیئے پر را سے پیسے لے لیئے۔ جب یہ نہیں جچا تو ہمیں یاد آیا کہ الطاف حسین تو کارکنوں کو تربیت کیلئے بھی انڈیا بھیجا کرتے ہیں اس پہ بات کی جائے لیکن پھر ذہن منتشر ہوا کہ یہ کیسے جاہل را سے جنگی تربیت یافتہ لوگ ہیں جو مسلسل چھاپوں میں گرفتار ہوتے رہے کسی را کے تربیت یافتہ ایجنٹ نے کسی جگہ کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا۔ اللہ جانے میڈیا کو دکھایا گیا اسلحہ انہیں استعمال کرنا آتا بھی تھا یا نہیں۔ کیونکہ جنہیں استعمال آتا ہے وہ کبھی شب قدر میں قیامت کے منظر دکھاتے ہیں کبھی قصہ خوانی بازار میں اپنی تربیت آزماتے ہیں۔ ہمیں الطاف حسین کو گالی لکھ کے حب الوطنی کا ثبوت تو دینا تھا پر ہمیں واقعی سمجھ نہ آسکا کہ یہ بھی خوب را کا ایجنٹ ہے جو بھتے بھی لیتا ہے انڈیا سے فنڈنگ بھی لیتا ہے پر خدمت خلق فاونڈیشن پاکستان میں بناتا ہے۔ جس کے تحت کے کے ایف ایمبولینس سروس و کے کے ایف میت گاڑیاں چلتی ہیں جس فاونڈیشن کے تحت نذیر حسین ہسپتال چلتا ہے جہاں پچاس روپے کی پرچی کے عیوض بڑے سے بڑے اسپیشلسٹ کو دکھایا جاسکتا ہے جس کے تحت فری خورشید بیگم میموریل کلینک چلتی ہے جس کو لاکھوں ووٹ پڑتا ہو ایسی فلاحی فاونڈیشن کے بانی کو گالی کیسے لکھ دیتا ۔ ایک جان ہے جو اللہ ہی کو لوٹانی ہے  سو ہم تو باز آئے ایسی حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ سے ہمارے قلم نے تو ہمارا ساتھ نہ دیا اور ہم ان تمام لوگوں کو بشمول الطاف حسین غدار نہ لکھ پائے۔سو آپ لوگ اب ہمیں غدار لکھ دیں

ضمیر لوٹ میلہ

آجکل ڈیفنس کراچی میں ضمیر جگاؤ مہم زورو شور سے جاری ہے۔ ۵ کے قریب افراد کے ضمیر جاگ چکے ہیں اور دو چار کے شاید اور جاگ جائیں۔لیکن یہ جاگنے والے سارے ضمیر پرانی سبزی منڈی کے ہیرونچیوں سے قطعی کم نہیں کہ جب بھی جاگتے ہیں بوٹوں کی آہٹ سے ہی جاگتےہیں۔ فی زمانہ ضمیر جاگنے کی سب سے بڑی کرامت  تمام الزامات سے بری ہونا ہے۔ جس جس کا ضمیر جاگتا جارہا وہ خود بخود گنگا نہاکر ڈیفنس فیز سکس خیابان سحر پہ جمع کیا جارہا ہے۔ یہ جاگےضمیر کی ہی تو کرامت ہے کہ میڈیا اور لوگ شبقدر واقعہ۔۔ CPEC نیب کو لگام لگانا۔۔۔ سیکورٹی کے حالات۔۔۔ذوالفقار مرزا…ممتاز قادری  سب بھول گئے۔بس یاد رہا تو صرف ضمیر۔

اس سے پہلے بھی اس ملک میں جاگے ضمیر نامی ڈرامے اور کہانیاں چلتی رہی ہیں ۔ہدایتکار کی ہدایت پہ کرداروں کے ضمیر وقتاًفوقتاً جاگتے رہے لیکن ڈرامے کے اختتام کے ساتھ ساتھ جاگے ضمیر کا کردار ہمیشہ  ہی ختم ہوتارہا ہے کیونکہ جاگے ضمیر کو بھی ڈرامے کے اختتام پہ ہی سمجھ آتا ہے کہ کردار چاہے کتنا ہی باضمیر کا ہو کہانی کیساتھ ختم ہوجاتا ہے۔کہانی ختم کردار ختم۔ گر یاد کریں تو یاد آئیگا کہ ایک تھی ق لیگ،ایک تھا میاں اظہر،ایک تھا صولت مرزا،ایک تھا یحیی بختیار اور مستقبل قریب میں  ایک ہوگا مصطفی کمال۔

اس دفعہ جاگے ضمیر گنگا نہائے آٹھ دس افراد کی قیادت آئی سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے حصے میں اور ہدایت کار کی ہدایت کے عین مطابق آپ نے کردار ادا کرنا شروع کیا۔آج تک کی تمام پریس کانفرنسز میں کمال نے جتنی باتیں کیں وہ ایک سے بڑھ ایک پرانی باتیں تھیں کچھ بھی نیا نہیں تھا یہ ساری باتیں چند افراد کا ٹولہ ۹۲ میں بھی کرچکا ہے۔اسی طرح کے الزامات یہی سب کچھ حتی کہ انکے اسکرپٹ میں بھی جھنڈا پاکستان ہی کا ہواکرتا تھا لیکن نتیجہ کیا ہوا کچھ بھی نہیں انکی کسی بات پر عوام و کارکنان نے کان دھرے قطعی نہیں بلکہ کوئی ۱۵سال تو کوئی ۱۸سال بعد معافی مانگ مانگ کر واپس آیا۔ لیکن ۹۲ کے کرداروں کی خوش نصیبی یہ تھی پندرہ سترہ سال بعد انہیں معاف کرنے کیلئے الطاف حسین نہ صرف موجود بلکہ صحت مند تھے۔کیونکہ یہ بات مصطفی کمال بھی بخوبی جانتے تھے جس دن الطاف حسین نہیں ہوں گے اس دن پھر کون مصطفی کمال یا کون زید اور کون بکر یہ قوم بےضمیروں کو جوتیوں میں دال بانٹے گی۔ یہ کسی اور کے قابوکے نہیں۔

اور جہاں تک بات اختلاف کی ہے تو ایم کیو ایم میں رہ کر بھی لوگوں نے اختلاف کیا اور ایم کیو ایم سے کنارہ کشی اختیار کرکے بھی لوگوں نے اختلاف کیا۔ سیاسی جماعتوں میں نظریے کی بناد پہ مختلف لابیز ہوا کرتی ہیں جن میں صحت مند اختلاف ان سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا ضامن ہوا کرتا ہے۔  حالیہ مثالوں میں ایک مثال عامر لیاقت کی بھی تو ہے ایم کیو ایم کے رکن کی حیثیت سے اسٹیٹ منسٹر اور پھر وزارت سے استعفی اور ایم کیو ایم سے بھی استعفی لیکن کیا عامرلیاقت نے اپنے محسن اپنی قوم کے لیڈر کی کردار کشی کی قطعی نہیں کی۔ عامر لیاقت دنیا کے ۵۰۰بااثر افراد میں سے ایک ہیں انکے تعلقات اسٹیبلشمنٹ اور پریس سے کمال سے کہیں کمال کے ہیں لیکن بات صرف اتنی ہے کہ عامر لیاقت کم ظرف نہیں تھا اسکی رگوں میں شیخ لیاقت کا خون تھا لیکن کمال کا ابھی تک کمال صرف یہ ہے کہ علاوہ اپنے محسن کی کردار کشی اور کوئی بات ان کے منہ سے نکل ہی نہیں رہی یا تو موصوف اپنی تعریف میں رطب السان ہیں یا ان کی کردار کشی میں بولے جارہے جن کے آگے ہاتھ باندھے ہاتھ نہ تھکتے تھے۔اور یہ شر تو کمال کے کمال سے متوقع تھا ہی کیونکہ مولی علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماگئے کہ جس کیساتھ نیکی کرو اسکے شر سے بچو۔  

چلتے چلتے کمال اور کمال کے ضمیر کو یاددلاتے چلیں ۹۲ ہو یا ۲۰۱۶ زمانہ شاہد تھا اور زمانہ شاہد ہے کہ اگر پوری کی پوری ایم کیو ایم بشمول سپریم کونسل و رابطہ کمیٹی بھی کسی اور کیمپ میں چلے جائیں تو جائیں ایم کیو ایم کے کارکن اور ایم کیو ایم کا ووٹر صرف الطاف حسین سے جڑا ہے اور جڑا رہے گا اسکی تربیت کا خاصہ ہی تو ہے الطاف حسین کسی کھمبے کو کھڑا کردیں تو اسے ووٹ کرے جو کسی کتے کو ناظم اعلی بنادیں تو اسے سپورٹ کرے اور یہی ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی جیت ہے۔